محبت میں خود کو فنا کر گئی ہوں
وفا کرتے کرتے یہ کیا کر گئی ہوں
لگایا تھا دل جس سے پتھر وہ نکلا
کہ جذبات دل سے جدا کر گئی ہوں
منانا نہیں فیصلہ ہی تھا کرنا
میں روٹھی نہیں فاصلہ کر گئی ہوں
خیالوں میں پیکر نہیں اب دھواں ہے
تصور سے تجھ کو جدا کر گئی ہوں
بڑی مدتوں سے ہے دور آسماں بھی
میں آہوں کو اپنی صدا کر گئی ہوں
لیے در و غم دشت کو خوں سے سینچا
جنوں میں خرد جو سزا کر گئی ہوں
چلی دار کو حق پہ رہ کر نسیم اب
کہ ہونے کا حق بھی ادا کر گئی ہوں
نسیم بیگم
No comments:
Post a Comment