Tuesday 30 November 2021

محبت میں خود کو فنا کر گئی ہوں

 محبت میں خود کو فنا کر گئی ہوں

وفا کرتے کرتے یہ کیا کر گئی ہوں

لگایا تھا دل جس سے پتھر وہ نکلا

کہ جذبات دل سے جدا کر گئی ہوں

منانا نہیں فیصلہ ہی تھا کرنا

میں روٹھی نہیں فاصلہ کر گئی ہوں

خیالوں میں پیکر نہیں اب دھواں ہے

تصور سے تجھ کو جدا کر گئی ہوں

بڑی مدتوں سے ہے دور آسماں بھی

میں آہوں کو اپنی صدا کر گئی ہوں

لیے در و غم دشت کو خوں سے سینچا

جنوں میں خرد جو سزا کر گئی ہوں

چلی دار کو حق پہ رہ کر نسیم اب

کہ ہونے کا حق بھی ادا کر گئی ہوں


نسیم بیگم

No comments:

Post a Comment