تلاش لاکھ کیا میں نے پر نہیں آیا
مجھے فرار کا رستہ نظر نہیں آیا
اٹھے جو ہاتھ خدا سے تجھے ہی مانگا ہے
مگر دعا میں ابھی تک اثر نہیں آیا
چراغ جلتے رہے رات بھر نگاہوں کے
سحر تلک مِرا ہرجائی گھر نہیں آیا
سنا ہے عشق میں راحت نصیب ہوتی ہے
ہمیں تو چین مگر چٹکی بھر نہیں آیا
ادھار ہجر میں لی نیند چار لمحوں کی
مگر تُو خواب میں بھی بے خبر نہیں آیا
حیات تھم جا ابھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں
ذرا ٹھہر کہ مِرا ہمسفر نہیں آیا
سحر وفاؤں کی جاگیر سونپ دی ہے جسے
یقین اُس کو ابھی تک مگر نہیں آیا
سحر نورین
No comments:
Post a Comment