سلسلے یہ کیسے ہیں ٹوٹ کر نہیں ملتے
جو بچھڑ گئے لمحے عمر بھر نہیں ملتے
شور کرتے رہتے ہیں جسم و جاں کے سناٹے
جب طویل راہوں میں ہم سفر نہیں ملتے
دھوپ کی تمازت سے جو بچاؤ کر پاتے
سورجوں کے شہروں میں وہ شجر نہیں ملتے
چاہتوں بھرے کمرے دل کھلے کھلا آنگن
اب تو ڈھونڈنے پر بھی ایسے گھر نہیں ملتے
سب نے ہر ضرورت سے کر رکھا ہے سمجھوتا
لوگ ملتے رہتے ہیں دل مگر نہیں ملتے
وقت نے تو بستی کی شکل ہی بدل دی ہے
جن پہ رونقیں تھیں وہ بام و در نہیں ملتے
اپنے نفع و نقصاں کا سب حساب رکھتے ہیں
ہم سے ملنے والے بھی بے خبر نہیں ملتے
ان دنوں خلش اکثر منظروں کے وہ تیور
اجنبی دیاروں کی خاک پر نہیں ملتے
رؤف خلش
No comments:
Post a Comment