Sunday, 28 November 2021

دريچہ زندگى کا کھل رہا ہے

 دريچہ زندگى کا کھل رہا ہے

قدم فانى کى جانب چل رہا ہے

کسى مريم کى آمد لگ رہى ہے

حادثہ زندگى سے ٹل رہا ہے

اندھيرى رات میں مہتاب جيسا

ہميشہ رُخ پہ تيرا تِل رہا ہے

محبت میں وفا پرچار کرنے

ميرے ہاتھوں پہ ميرا دل رہا ہے

مجھے جلنے کى بدبُو آ رہى ہے

ميرے سينے میں کچھ تو جل رہا ہے

نحوست کى نشانى ہے چمن میں

شگوفہ زرد ہو کے کھل رہا ہے

فغاں کرنے کو پھولوں کے سرہانے

اکيلے باغ میں بلبل رہا ہے

قيامت کى گھڑى اب آ گئى کيا

سنو، ليلىٰ! سے مجنوں مل رہا ہے

تيرى قسمت میں لکھى ہے يہ صابر

برستے ابر میں بھى جل رہا ہے


صابر فرحان بلتستانی

No comments:

Post a Comment