دريچہ زندگى کا کھل رہا ہے
قدم فانى کى جانب چل رہا ہے
کسى مريم کى آمد لگ رہى ہے
حادثہ زندگى سے ٹل رہا ہے
اندھيرى رات میں مہتاب جيسا
ہميشہ رُخ پہ تيرا تِل رہا ہے
محبت میں وفا پرچار کرنے
ميرے ہاتھوں پہ ميرا دل رہا ہے
مجھے جلنے کى بدبُو آ رہى ہے
ميرے سينے میں کچھ تو جل رہا ہے
نحوست کى نشانى ہے چمن میں
شگوفہ زرد ہو کے کھل رہا ہے
فغاں کرنے کو پھولوں کے سرہانے
اکيلے باغ میں بلبل رہا ہے
قيامت کى گھڑى اب آ گئى کيا
سنو، ليلىٰ! سے مجنوں مل رہا ہے
تيرى قسمت میں لکھى ہے يہ صابر
برستے ابر میں بھى جل رہا ہے
صابر فرحان بلتستانی
No comments:
Post a Comment