نئے مسیحا بنیں گے نئے لقب ہوں گے
ہمارے ملک میں پھر انتخاب اب ہوں گے
سنا ہے پھر سے نئے خواب بیچے جائیں گے
سنا ہے پھر سے نئے جملے زیر لب ہوں گے
جو پانچ سال کبھی یاد تک نہیں آئے
وہی غریب وہ لاچار پھر طلب ہوں گے
لو پھر سے مندر و مسجد کا جن نکل آیا
لو پھر سے رہنما اب خوں کے تشنہ لب ہوں گے
چمن میں بو تو رہے ہو تم انتشار کے بیج
اس انتشار کا لیکن شکار سب ہوں گے
ہمارے ملک کا آئین ہم سے کہتا ہے
اب انقلاب فقط ووٹ کے سبب ہوں گے
شہاب اپنے ہی جن سے نہ فیضیاب ہوئے
تمہارے اور مِرے غمگسار کب ہوں گے
اعجازالحق شہاب
No comments:
Post a Comment