بیٹے کا خط ماں کے نام
اے مِری ماں مجھے آنکھوں میں بسانے والی
لوریاں روز مجھے دے کے سُلانے والی
اپنی غربت کا نہ احساس دلایا تُو نے
خوب کردار مِری ماں کا نبھایا تُو نے
یہ نوازش یہ کرم اور یہ شہرت اے ماں
تُو نے بخشی ہے مجھے علم کی دولت اے ماں
ہے دعاؤں کا نتیجہ مِری عزت اے ماں
آج عہدے پہ ہوں میں تِری بدولت اے ماں
مجھ کو کمرے میں اچانک جو نہ پاتی ہو گی
میری تصویر کو سینے سے لگاتی ہو گی
مجھ کو معلوم ہے راتوں کو جگاتی ہو گی
یاد میری تجھے دن رات ستاتی ہو گی
میں نے پائی ہے خبر آج کہ بیمار ہے تُو
میں نہیں پاس تو دنیا سے بھی بیزار ہے تُو
تُو نے بھیجا ہے مجھے خط یہ بلانے کے لیے
میں ہوں بے چین تِرے پاس میں آنے کے لیے
کیا بتاؤں ذرا فرصت نہیں رہتی مجھ کو
تجھ سے ملنے نہیں دیتی مِری بیوی مجھ کو
سیفی سرونجی
No comments:
Post a Comment