کار نو
کچھ انتظار اور کرو صبر ناگوار اور کرو
کچھ اپنے سروں کو قلم گریباں کو چاک اور کرو
اپنے اندر کی گرمئ خوں سنبھال کر رکھو
اندھیروں میں سخت پہروں میں ذرا یہ جور اور سہو
فضا پلٹنے میں جور تھمنے میں وقت ہے شاید
صبح ہونے میں وقت ہے یا صرف ایسا لگتا ہے
درد سینے میں اٹھ اٹھ کے ناکامیوں کو روتا ہے
سانس برف بن کر کے دھمنیوں میں بہتی ہے
اپنی قسمت پہ حالت پہ دم نکلتا ہے
وہ گھڑی ہے کہ آؤ سوچیں کہ کیوں ہوا ایسا
یہ بھی ممکن ہے کہ فضا پلٹ نہ سکے
صبح جو ہوتی دکھتی ہے کبھی بھی ہو نہ سکے
ہماری موت سے پہلے ہماری صورت بدل نہ سکے
حنا جو پتھروں پہ کھلتی تھی کھل نہ سکے
اگر یہ یوں ہے تو کیا اس کی ذمہ داری اپنی ہے
ہم دیوتا کا دانو کا فرق بھول چکے ہیں
کڑی دوا کا میٹھے زہر کا فرق بھول چکے ہیں
ہم بھول چکے ہیں دغا کے مسکراتے چہرے کو
ہم اپنی ذات کے تہذیب و سنسکار بھول چکے ہیں
ہمیں جو ہم نہیں ہیں تو غیروں سے کیا گلہ کرنا
اٹھو کہ خود کو پہچانو اپنا حوصلہ جوڑو
یہ سلاخیں یہ بیڑیاں یہ ہتھکڑی توڑو
یہ بزدلی یہ ناکامیاں یہ نال چھوڑو
اٹھو سب ساتھ مل کے یلغار چھیڑو
زمانہ دیکھنا تم کو پھر سے سلام ٹھوکے گا
پھر اس کے بعد صبح خود بہ خود طلوع ہوگی
یہ دنیا تمہارے سامنے پھر سے نگوں ہوگی
فضا میں چار سو پھر تیرنے لگے گی خوشحالی
اور نئے سرے سے تاریخ ہند پھر شروع ہوگی
ابھی بھی وقت ہے اٹھو کار نو کی ابتدا کر دیں
قلیل جھانسوی
No comments:
Post a Comment