Tuesday, 30 November 2021

کچھ انتظار اور کرو صبر ناگوار اور کرو

 کار نو


کچھ انتظار اور کرو صبر ناگوار اور کرو

کچھ اپنے سروں کو قلم گریباں کو چاک اور کرو

اپنے اندر کی گرمئ خوں سنبھال کر رکھو

اندھیروں میں سخت پہروں میں ذرا یہ جور اور سہو

فضا پلٹنے میں جور تھمنے میں وقت ہے شاید


صبح ہونے میں وقت ہے یا صرف ایسا لگتا ہے

درد سینے میں اٹھ اٹھ کے ناکامیوں کو روتا ہے

سانس برف بن کر کے دھمنیوں میں بہتی ہے

اپنی قسمت پہ حالت پہ دم نکلتا ہے

وہ گھڑی ہے کہ آؤ سوچیں کہ کیوں ہوا ایسا


یہ بھی ممکن ہے کہ فضا پلٹ نہ سکے

صبح جو ہوتی دکھتی ہے کبھی بھی ہو نہ سکے

ہماری موت سے پہلے ہماری صورت بدل نہ سکے

حنا جو پتھروں پہ کھلتی تھی کھل نہ سکے

اگر یہ یوں ہے تو کیا اس کی ذمہ داری اپنی ہے


ہم دیوتا کا دانو کا فرق بھول چکے ہیں

کڑی دوا کا میٹھے زہر کا فرق بھول چکے ہیں

ہم بھول چکے ہیں دغا کے مسکراتے چہرے کو

ہم اپنی ذات کے تہذیب و سنسکار بھول چکے ہیں

ہمیں جو ہم نہیں ہیں تو غیروں سے کیا گلہ کرنا


اٹھو کہ خود کو پہچانو اپنا حوصلہ جوڑو

یہ سلاخیں یہ بیڑیاں یہ ہتھکڑی توڑو

یہ بزدلی یہ ناکامیاں یہ نال چھوڑو

اٹھو سب ساتھ مل کے یلغار چھیڑو

زمانہ دیکھنا تم کو پھر سے سلام ٹھوکے گا


پھر اس کے بعد صبح خود بہ خود طلوع ہوگی

یہ دنیا تمہارے سامنے پھر سے نگوں ہوگی

فضا میں چار سو پھر تیرنے لگے گی خوشحالی

اور نئے سرے سے تاریخ ہند پھر شروع ہوگی

ابھی بھی وقت ہے اٹھو کار نو کی ابتدا کر دیں


قلیل جھانسوی

No comments:

Post a Comment