کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا
چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا
رکھتا جاتا ہوں میں خوابوں پر لگا کر اک نشان
کون سا باقی ہے اب بھی کون سا دیکھا گیا
🚶آدمی ہی آدمی کو ڈھونڈتا آیا نظر🚶
🚶آدمی ہی آدمی سے بھاگتا دیکھا گیا🚶
رات کو پھر دیر تک سب بول رکھ کے سامنے
کب کہاں کس سے بھلا، کیا کیا کہا، دیکھا گیا
روشنی دن کو سنبھالی تھی ذرا سی جو حضور
ڈال کر شب کو دِیے میں راستہ دیکھا گیا
یہ نہیں کہ رک گئے پہلے یا تیرے بعد عشق
ہاں مگر کچھ روز تجھ پر اکتفا دیکھا گیا
اس قدر عادت ہوئی اس کی، کہ پہلے درد سے
ہاتھ چھڑوانے سے پہلے دوسرا دیکھا گیا
عزم الحسنین عزمی
No comments:
Post a Comment