موسم بھی یاد یار میں دلگیر ہو گیا
تنہائیوں سے میری بغل گیر ہو گیا
دامن پہ میرے داغ لگانے کی ضد میں وہ
کردار کی وہ اپنے ہی تشہیر ہو گیا
بچوں نے مجھ کو گھر سے نکلنے نہیں دیا
رشتہ یہ میرے پاؤں کی زنجیر ہو گیا
مرنے سے اس کو اپنے کبھی ڈر نہیں لگا
جینا جب اس کے واسطے تعزیر ہو گیا
اللہ نے رِت جگوں کی دعائیں قبول کی
وہ خواب میرے خواب کی تعبیر ہو گیا
آنسو میں ڈھل کے زیرِ لحد کھو گیا کہیں
یا درد بن کے دل سے بغل گیر ہو گیا
سیما الجھ گئی ہے سیاست کے جال میں
دل کا معاملہ تھا جو گمبھیر ہو گیا
عشرت معین سیما
No comments:
Post a Comment