جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں
یہ اور بات ہے جیتو کہ ہار جاؤں میں
کبھی میں خواب میں دیکھوں ہری بھری فصلیں
کبھی خیال کے دریا کے پار جاؤں میں
💢اک اور معرکۂ جبر و اختیار سہی💢
💢اک اور لمحۂ تازہ گزار جاؤں میں💢
بکھر گئے ہیں جو لمحے سمیٹ لوں ان کو
بگڑ گئے ہیں جو نقشے سنوار جاؤں میں
کبھی تو اپنی طلب میں بھی اس طرح نکلوں
خود اپنے آپ سے بے گانہ وار جاؤں میں
لہو کا رنگ کہ آتش کا رنگ کچھ تو ہو
جو نقش دب سے گئے ہیں ابھار جاؤں میں
محبتوں کو نہ لگ جائے نفرتوں کی نظر
خدا کرے کہ ہر اک دکھ سہار جاؤں میں
پھر اپنا عکس میں اپنی ہی ذات میں دیکھوں
جو ہو سکے تو ہر اک دکھ کے پار جاؤں میں
کسی کے رنگ میں خود کو میں رنگ لوں اطہر
جواب آئے نہ آئے پکار جاؤں میں
اسحاق اطہر صدیقی
No comments:
Post a Comment