تمہاری یاد کے جگنو سرابوں سے نہیں نکلے
حقیقت میں ابھی تک ہم عتابوں سے نہیں نکلے
لبوں کو استعارہ پھول سے کرتے نہیں تھکتے
لب و رخسار کے شاعر گلابوں سے نہیں نکلے
اگرچہ حسرتوں کے باب کتنے ہی کھرچ ڈالے
حروفِ آرزو دل کی کتابوں سے نہیں نکلے
کریں گے درد کی یہ داستاں منسوب تم سے ہی
ابھی ہم اپنے زخموں کے حسابوں سے نہیں نکلے
ہماری سوچ کے پہلو قفس میں قید ہیں ایسے
کہ جیسے عشق کے پنچھی عذابوں سے نہیں نکلے
خلیل مرزا
No comments:
Post a Comment