Monday 29 November 2021

تمہاری یاد کے جگنو سرابوں سے نہیں نکلے

 تمہاری یاد کے جگنو سرابوں سے نہیں نکلے

حقیقت میں ابھی تک ہم عتابوں سے نہیں نکلے

لبوں کو استعارہ پھول سے کرتے نہیں تھکتے

لب و رخسار کے شاعر گلابوں سے نہیں نکلے

اگرچہ حسرتوں کے باب کتنے ہی کھرچ ڈالے

حروفِ آرزو دل کی کتابوں سے نہیں نکلے

کریں گے درد کی یہ داستاں منسوب تم سے ہی

ابھی ہم اپنے زخموں کے حسابوں سے نہیں نکلے

ہماری سوچ کے پہلو قفس میں قید ہیں ایسے

کہ جیسے عشق کے پنچھی عذابوں سے نہیں نکلے


خلیل مرزا

No comments:

Post a Comment