غم کا اظہار بھی کرنے نہیں دیتی دنیا
اور مرتا ہوں تو مرنے نہیں دیتی دنیا
سب ہی مے خانۂ ہستی سے پیا کرتے ہیں
مجھ کو اک جام بھی بھرنے نہیں دیتی دنیا
آستاں پر تِرے ہم سر کو جھکا تو لیتے
سر سے یہ بوجھ اترنے نہیں دیتی دنیا
ہم کبھی دیر کے طالب ہیں کبھی کعبہ کے
ایک مرکز پہ ٹھہرنے نہیں دیتی دنیا
بجلیوں سے جو بچاتا ہوں نشیمن اپنا
مجھ کو ایسا بھی تو کرنے نہیں دیتی دنیا
مندمل ہونے پہ آئیں تو چھڑکتی ہے نمک
زخم دل کے مِرے بھرنے نہیں دیتی دنیا
میری کوشش ہے محبت سے کنارہ کر لوں
لیکن ایسا بھی تو کرنے نہیں دیتی دنیا
دینے والوں کو ہے دنیا سے بغاوت لازم
دینے والوں کو ابھرنے نہیں دیتی دنیا
جس نے بنیاد گلستاں کی کبھی ڈالی تھی
اس کو گلشن سے گزرنے نہیں دیتی دنیا
گھٹ کے مر جاؤں یہ خواہش ہے زمانے کی کنول
آہ بھرتا ہوں تو بھرنے نہیں دیتی دنیا
کنول ڈبائیوی
No comments:
Post a Comment