Sunday 28 November 2021

قربان خواہشات پر اپنی انا نہ کی

 قربان خواہشات پر اپنی انا نہ کی

سائل تھے ہم مگر کبھی ہم نے صدا نہ کی

ہم کو وفا کا درس وہ دے کر چلا گیا

خود اپنے آپ سے کبھی جس نے وفا نہ کی

میں تو گناہ گار ہوں،۔ انسان جو ہوا

خاکی نہیں، فرشتہ ہے جس نے خطا نہ کی

جُود و عطا تو شرط ہے حاتم کے واسطے

ایسا سخی بھی کیا ہوا جس نے عطا نہ کی

چھوڑا ہے کوئے یار کو برتی ہے احتیاط

تنہا سفر کے واسطے بانگِ درا نہ کی

اہلِ سخن کو ہم سے عداوت رہی سدا

اپنے کلام میں کبھی ہم نے ریا نہ کی

میرا مرض تھا عشق، مجھے پالتا رہا

شاہد اسی لیے ہی تو میں نے دوا نہ کی


شاہد عباس

No comments:

Post a Comment