قربان خواہشات پر اپنی انا نہ کی
سائل تھے ہم مگر کبھی ہم نے صدا نہ کی
ہم کو وفا کا درس وہ دے کر چلا گیا
خود اپنے آپ سے کبھی جس نے وفا نہ کی
میں تو گناہ گار ہوں،۔ انسان جو ہوا
خاکی نہیں، فرشتہ ہے جس نے خطا نہ کی
جُود و عطا تو شرط ہے حاتم کے واسطے
ایسا سخی بھی کیا ہوا جس نے عطا نہ کی
چھوڑا ہے کوئے یار کو برتی ہے احتیاط
تنہا سفر کے واسطے بانگِ درا نہ کی
اہلِ سخن کو ہم سے عداوت رہی سدا
اپنے کلام میں کبھی ہم نے ریا نہ کی
میرا مرض تھا عشق، مجھے پالتا رہا
شاہد اسی لیے ہی تو میں نے دوا نہ کی
شاہد عباس
No comments:
Post a Comment