اٹھ رہا ہے شبِ فرقت کا دھواں سینے سے
یعنی آتی ہے تِرے غم کی اذاں سینے سے
جب تِری یاد کے کچھ ہنس چلے آتے ہیں
ہونے لگتی ہے کوئی ندی رواں سینے سے
ناچتی رہتی ہے آنکھوں میں جدائی تیری
باندھ رکھا ہے کوئی شورِ فغاں سینے سے
کیا کروں اس کی مجھے یاد بہت آتی ہے
درد اٹھتا ہے مِرے یار یہاں سینے سے
چیختا رہتا ہے اب مجھ میں کوئی اور ہی شخص
کھول رکھی ہے کسی غم نے زباں سینے سے
کب وہ محبوب بلانے سے مِرے آتی ہے
کیا ہٹائے کوئی دیوارِ گماں سینے سے
محبوب صابر
No comments:
Post a Comment