نام رکھتا ہوں نہ میں مال نہ زر رکھتا ہوں
ہاں مگر ماں کی دعاؤں کا اثر رکھتا ہوں
آسمانوں سے بلندی پہ نظر رکھتا ہوں
جب بھی ماں آپ کی آغوش میں سر رکھتا ہوں
لاکھ طوفان ہوں ٹکرا کے گزرتا ہوں میں
ماں کی پلکوں کے ستاروں کی خبر رکھتا ہوں
راہ کے سنگ کہیں آپ کو تکلیف نہ دیں
اس لیے آپ کے قدموں میں جگر رکھتا ہوں
آپ سے لاکھ دفعہ دور چلا جاؤں ماں
میں یہیں آپ کے دل میں کہیں گھر رکھتا ہوں
ماں نے آنچل میں ہی پرواز سکھائی ثاقب
ورنہ جُنبش، نہ کوئی بال، نہ پر رکھتا ہوں
اقبال ثاقب
No comments:
Post a Comment