حالِ دل پر مِرے نظر نہ ہوئی
لٹ گیا میں انہیں خبر نہ ہوئی
اپنے غم میں غزل میں کہتا گیا
لوگ کہتے ہیں بحر پر نہ ہوئی
منتظر تھا خدا مدد کے لیے
پر دعا ہم سے پر اثر نہ ہوئی
اس نے کمرہ مِرا سجایا یوں
کوئی بھی شے اِدھر اُدھر نہ ہوئی
صرف سانسیں ہی آتی جاتی رہی
زندگی ڈھنگ سے بسر نہ ہوئی
کس سے شکوہ کرے یہاں گوہر
مہرباں مجھ پہ وہ نظر نہ ہوئی
زبیر گوہر
No comments:
Post a Comment