شبِ وعدہ اندھیرا چھا گیا کیا تم نہ آؤ گے؟
فلک پر چاند بھی کجلا گیا کیا تم نہ آؤ گے
تمہارا ہجر آفت ڈھا گیا کیا تم نہ آؤ گے
ہمارا دل بہت گھبرا گیا کیا تم نہ آؤ گے
چمن میں ہر طرف گلہائے رنگیں مسکرا اٹھے
بہاروں کا زمانہ آ گیا کیا تم نہ آؤ گے
ہماری جان پر بن آتی ہے دورِ محبت میں
جنون دل قیامت ڈھا گیا کیا تم نہ آؤ گے
کہاں تک انتظارِ جلوہ میں تڑپیں مِری آنکھیں
دلِ بے تاب اب گھبرا گیا کیا تم نہ آؤ گے
مریضِ درد و غم پر نزع کا عالم ہوا طاری
سرِ بالیں زمانہ آ گیا کیا تم نہ آؤ گے
سرِ مےخانہ اک دنیا چلی آتی ہے پینے کو
وہ دیکھو مست بادل چھا گیا کیا تم نہ آؤ گے
دم آخر نہ تھیں کچھ اور باتیں اس کے ہونٹوں پر
مریضِ غم یہی کہتا گیا؛ کیا تم نہ آؤ گے
تمہاری یاد میں اعجاز اپنے ہوش کھو بیٹھا
اسے تنہائی کا غم کھا گیا کیا تم نہ آؤ گے
اعجاز قریشی
No comments:
Post a Comment