ایک چہرے پہ لگے کتنے ہی چہرے دیکھے
وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے رشتے دیکھے
لوگ گِرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں یہاں
آستینوں میں کئی سانپ بھی پلتے دیکھے
مجھ پہ الزام لگاتا ہے پسِ پشت جو شخص
کون ہوں کیسا ہوں میں، سامنے آ کے دیکھے
کس کو فرصت ہے جو تاریخ کے صفحے پلٹے
"کون اس وقت کی دیوار کے آگے دیکھے"
جب ہو مطلب تو بٹھا لیتے ہیں سر آنکھوں پر
میں نے تو دوست کچھ ایسے ہی نرالے دیکھے
اُنگلیاں خون میں لت پت ہیں تو حیرت کیا ہے
پھول چنتے ہوئے ہاتھوں نے نہ کانٹے دیکھے
ہم نے آثارِ قیامت بھی یہاں دیکھے ہیں
بھوک کی آگ میں جلتے ہوئے بچے دیکھے
غیر سے کیا کوئی امید لگائیں علوی
عشق کے رنگ بھی جو دیکھے تو پھیکے دیکھے
شان حیدر علوی
No comments:
Post a Comment