Tuesday, 30 November 2021

میرے لیے بھی کوئی تحفۂ سفر لانا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


میرے لیے بھی کوئی تحفۂ سفر لانا

پلٹ کے آنا تو پھر ایک نئی سحر لانا

کسی کا غم ہو مگر اپنی آنکھ بھر لانا

کہ جیسے ہنستے ہوئے دشمنوں کو گھر لانا

خدا خدا ہے، خدا بھی مگر نہ چاہے گا

میرے رسولﷺ کے جیسا کوئی بشر لانا

سلگتی دھوپ میں چلنا میرا مقدر ہے

جو ہو سکے تو کوئی سایہ شجر لانا

کسی کے غم میں جو ٹپکے وہ اشک موتی ہے

مجھے بھی دیدۂ گریاں کوئی گُہر لانا

ہزار رنج ہوں پھر بھی مجھے قبول نہیں

خوشی زمانے کی ایمان بیچ کر لانا

یہ مانا خضر نہیں ہم مگر ہے کام اپنا

کسی بھٹکتے مسافر کو راہ پر لانا

قفس کو توڑ کر پرواز کا اشارہ ہے

کسی پرند کا جنبش میں بال و پر لانا

دعاء کو ہاتھ اٹھانا کوئی کمال نہیں

بڑا کمال دعاؤں میں ہے اثر لانا

رئیس روز یہ بادِ صبا سے کہتا ہے

اُدھر جو جانا تو ان کی کوئی خبر لانا


رئیس جہانگیرآبادی 

No comments:

Post a Comment