عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میرے لیے بھی کوئی تحفۂ سفر لانا
پلٹ کے آنا تو پھر ایک نئی سحر لانا
کسی کا غم ہو مگر اپنی آنکھ بھر لانا
کہ جیسے ہنستے ہوئے دشمنوں کو گھر لانا
خدا خدا ہے، خدا بھی مگر نہ چاہے گا
میرے رسولﷺ کے جیسا کوئی بشر لانا
سلگتی دھوپ میں چلنا میرا مقدر ہے
جو ہو سکے تو کوئی سایہ شجر لانا
کسی کے غم میں جو ٹپکے وہ اشک موتی ہے
مجھے بھی دیدۂ گریاں کوئی گُہر لانا
ہزار رنج ہوں پھر بھی مجھے قبول نہیں
خوشی زمانے کی ایمان بیچ کر لانا
یہ مانا خضر نہیں ہم مگر ہے کام اپنا
کسی بھٹکتے مسافر کو راہ پر لانا
قفس کو توڑ کر پرواز کا اشارہ ہے
کسی پرند کا جنبش میں بال و پر لانا
دعاء کو ہاتھ اٹھانا کوئی کمال نہیں
بڑا کمال دعاؤں میں ہے اثر لانا
رئیس روز یہ بادِ صبا سے کہتا ہے
اُدھر جو جانا تو ان کی کوئی خبر لانا
رئیس جہانگیرآبادی
No comments:
Post a Comment