Sunday, 28 November 2021

صحرا صحرا ساگر ساگر میں بھی ڈھونڈوں تو بھی ڈھونڈ

 صحرا صحرا ساگر ساگر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

کون چُھپا ہے کس کے اندر میں بھی ڈھونڈوں تو بھی ڈھونڈ

چور سپاہی ایک برابر،۔ میں بھی ڈھونڈوں بھی ڈھونڈ

کس کے پاس ہے خونی خنجر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

امن و امان کا جسے فرشتہ کہتے ہیں سب دنیا والے

سرحد سرحد وہی کبوتر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

آڑی تِرچھی ریکھاؤں میں جس پر سب کے بھاگ لکھے ہیں

بازاروں میں ایسے پتھر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

کب تک آنگن میں ڈھونڈے گا اپنے قد کی پرچھائیں کو؟

چل اس حد سے پار نکل کر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

فرعون و بُو جہل کی سُنت گھر گھر پھر سے عام ہوئی ہے

پھر کوئی اوتار و پیمبر، میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

ڈھونڈنے والے ڈھونڈ رہے ہیں سچائی کے پیمانے کو

آ اب اپنے من کے اندر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

ناگوں کو جو بس میں کر لے زہر کو پی کر امرت کر دے

آج کے یُگ میں ایسا شنکر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

کوئی چور تو آیا ہو گا جس نے کی تہذیب کی چوری

کیسے ٹوٹا گھر کا چھپر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

چاند پہ جانے والوں سے کیا آس لگائے بیٹھے کوئی

اس دھرتی پر چھوٹا سا گھر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ

کون مجاز اس بات کو روئے، کیسی ہے کس پھول کی خوشبو

آنکھوں آنکھوں سب کو چھو کر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ


مجاز انصاری

نیاز احمد 

No comments:

Post a Comment