ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے
راستہ جو نہ ہو دشوار تھکا دیتا ہے
جس کا جی زخم کے بھر جانے پہ راضی ہی نہ ہو
چارہ سازوں کو وہ بیمار تھکا دیتا ہے
دیکھنے والا نظر باز بلا کا ہو بھی
تیرے رُخسار کا تل، یار! تھکا دیتا ہے
حوصلے اور تحمل سے طلبگاروں کے
منکرِ وصل کو انکار تھکا دیتا ہے
لذتِ عیش سے، سرشار اگر روح نہ ہو
جسم کو جسم کا انبار تھکا دیتا ہے
عشق پا جاتا ہے بند آنکھ سے منزل کا سراغ
عقل کو دیدۂ بیدار تھکا دیتا ہے
صبر کا سنگ عقیل اپنے شکم پر باندھو
جبر کے ہاتھ کو کردار تھکا دیتا ہے
عقیل اختر
No comments:
Post a Comment