Sunday, 28 November 2021

ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے

 ہر قدم سایۂ اشجار تھکا دیتا ہے

راستہ جو نہ ہو دشوار تھکا دیتا ہے

جس کا جی زخم کے بھر جانے پہ راضی ہی نہ ہو

چارہ سازوں کو وہ بیمار تھکا دیتا ہے

دیکھنے والا نظر باز بلا کا ہو بھی

تیرے رُخسار کا تل، یار! تھکا دیتا ہے

حوصلے اور تحمل سے طلبگاروں کے

منکرِ وصل کو انکار تھکا دیتا ہے

لذتِ عیش سے، سرشار اگر روح نہ ہو

جسم کو جسم کا انبار تھکا دیتا ہے

عشق پا جاتا ہے بند آنکھ سے منزل کا سراغ

عقل کو دیدۂ بیدار تھکا دیتا ہے

صبر کا سنگ عقیل اپنے شکم پر باندھو

جبر کے ہاتھ کو کردار تھکا دیتا ہے


عقیل اختر

No comments:

Post a Comment