عجیب بات ہے دل ضابطے میں کوئی نہیں
ابھی نہ عشق ہوا، حادثے میں کوئی نہیں
ورق ورق پہ ہو تحریر صرف تُو ہی تُو
کتاب دل کے ابھی حاشیے میں کوئی نہیں
بجھے بجھے سے ستارے، نہ چاندنی نہ چراغ
شبِ فراق تِرے رت جگے میں کوئی نہیں
نہ گفتگو، نہ ہی دیدارِ یار ہم کو ہُوا
ملا نہ خود سے ابھی رابطے میں کوئی نہیں
نہ قہقہے، نہ تبسم، نہ چہرے پر مسکان
سوائے غم کے مِرے قافلے میں کوئی نہیں
دل ایک سنگ تھا پھینکا ہے ہم نے جھیل میں خود
چلے بھی آؤ کے اب راستے میں کوئی نہیں
خفا خفا ہیں سبھی رند اور ساقی بھی
کہ مست الست سا پھر میکدے میں کوئی نہیں
میں خود کو چاک پہ دھر کر گھما رہا ہوں کرم
شریک میرے کسی سانحے میں کوئی نہیں
کرم حسین بزدار
No comments:
Post a Comment