کس جگہ جاتا ہے اور کون سے در جاتا ہے
تیرے در سے جو پلٹ آئے کدھر جاتا ہے
منظرِ عام پہ آتا ہے تو ڈر جاتا ہے
اشک میرا مِرے اندر ہی بکھر جاتا ہے
کیا ہوا چھوڑ کہ ہر بار اگر جاتا ہے
دو گھڑی مجھ سے مگر بات تو کر جاتا ہے
آج وہ زخم کی تاثیر سے تر جاتا ہے
وہ جو کہتا تھا میاں زخم ہے بھر جاتا ہے
کس کی یادوں کے دیے زخم مجھے چبھتے ہیں
کون ہے جو مِری آنکھوں میں ٹھہر جاتا ہے
کس کا خوں ہے کہ یہ مٹی بھی تڑپ اٹھی ہے
نوکِ نیزہ پہ یہ کس مرد کا سر جاتا ہے
فیضان قادر
No comments:
Post a Comment