غم سے آزاد نہ کیوں غم کے یہ مارے ہوں گے
کوئے جاناں کے کسی روز نظارے ہوں گے
دل نہ سمجھا مِری فریاد مخالف ہی رہا
لاکھ سمجھایا محبت میں خسارے ہوں گے
کہکشاؤں میں تو دنیا ہی نئی دیکھی ہے
ہم سمجھتے تھے کہ بس چاند ستارے ہوں گے
دوش سارا ہی رقیبوں پہ دھروں میں کیسے
کچھ نہ کچھ تیری طرف سے بھی اشارے ہوں گے
ڈوبتا دیکھ کے خوش ہو مجھے یوں لگتا ہے
نا خدا تم نے ہی ساحل پہ اتارے ہوں گے
تُو نہ سمجھے گا تِرے بعد یہ دن فرقت کے
کس قدر میں نے اذیت میں گزارے ہوں گے
پھول کھلتے نہیں شاہد کبھی صحراؤں میں
جو برستے نظر آتے ہیں شرارے ہوں گے
شاہد عباس
No comments:
Post a Comment