اٹھ کے پہلو سے کیا گیا کوئی
دل کی دھڑکن بڑھا گیا کوئی
ایک ہلچل مچا گیا کوئی
حشر دل میں اٹھا گیا کوئی
چار اشکوں میں چند آہوں میں
اپنی بیتی سنا گیا کوئی
میری ویران محفلِ دل میں
رنگ محفل جما گیا کوئی
بیٹھے بیٹھے یہ اس کو سوجی کیا
مجھ سے ہو کر خفا گیا کوئی
نقشِ امید جو کہ ابھرا تھا
وہ بھی دل سے مٹا گیا کوئی
اور کیونکر کسی کو میں چاہوں
میرے دل میں سما گیا کوئی
اپنی باتوں سے اپنی گھاتوں سے
ہوش میرے اڑا گیا کوئی
بجلیاں سی چمک اٹھیں دل میں
آج یوں مسکرا گیا کوئی
تند موجوں میں گھر گیا تھا میں
پار کشتی لگا گیا کوئی
آ گیا حسن پر مجھے مرنا
مجھ کو جینا سکھا گیا کوئی
دل ہے بے چین میں پریشاں ہوں
جب سے لوگو چلا گیا کوئی
مرنا چاہوں تو مر نہیں سکتا
زہر ایسا پلا گیا کوئی
ہر نفس شعلہ بار ہے میرا
آگ ایسی لگا گیا کوئی
میں تو بھولا ہوا تھا مدت سے
یاد تیری دلا گیا کوئی
ہو گئے آس کے دیے روشن
اپنی صورت دکھا گیا کوئی
غم کے اشکوں سے بھر گئیں آنکھیں
داستاں وہ سنا گیا کوئی
مجھ سے اعجاز چھین لیں خوشیاں
روگ دل کو لگا گیا کوئی
اعجاز قریشی
No comments:
Post a Comment