Wednesday 24 November 2021

اٹھ کے پہلو سے کیا گیا کوئی

 اٹھ کے پہلو سے کیا گیا کوئی

دل کی دھڑکن بڑھا گیا کوئی

ایک ہلچل مچا گیا کوئی

حشر دل میں اٹھا گیا کوئی

چار اشکوں میں چند آہوں میں

اپنی بیتی سنا گیا کوئی

میری ویران محفلِ دل میں

رنگ محفل جما گیا کوئی

بیٹھے بیٹھے یہ اس کو سوجی کیا

مجھ سے ہو کر خفا  گیا کوئی 

نقشِ امید جو کہ ابھرا تھا

وہ بھی دل سے مٹا گیا کوئی

اور کیونکر کسی کو میں چاہوں

میرے دل میں سما گیا کوئی

اپنی باتوں سے اپنی گھاتوں سے

ہوش میرے اڑا گیا کوئی

بجلیاں سی چمک اٹھیں دل میں

آج یوں مسکرا گیا کوئی

تند موجوں میں گھر گیا تھا میں

پار کشتی لگا گیا کوئی

آ گیا حسن پر مجھے مرنا

مجھ کو جینا سکھا گیا کوئی

دل ہے بے چین میں پریشاں ہوں

جب سے لوگو چلا گیا کوئی

مرنا چاہوں تو مر نہیں سکتا

زہر ایسا پلا گیا کوئی

ہر نفس شعلہ بار ہے میرا

آگ ایسی لگا گیا کوئی

میں تو بھولا ہوا تھا مدت سے

یاد تیری دلا گیا کوئی

ہو گئے آس کے دیے روشن

اپنی صورت دکھا گیا کوئی

غم کے اشکوں سے بھر گئیں آنکھیں

داستاں وہ سنا گیا کوئی

مجھ سے اعجاز چھین لیں خوشیاں

روگ دل کو لگا گیا کوئی


اعجاز قریشی

No comments:

Post a Comment