Wednesday, 24 November 2021

ابر ہی ابر ہے برستا نئیں

 ابر ہی ابر ہے، برستا نئیں

اب کے ساون تمہارے جیسا نئیں

خواب اور سینت کر رکھیں آنکھیں

ان سے آنسو تو اک سنبھلتا نئیں

گھومتی ہے زمین گرد مِرے

پاؤں اٹھتے ہیں رقص ہوتا نئیں

نوچ ڈالے ہیں اپنے پر میں نے

میں بھی انسان ہوں فرشتہ نئیں

کیسا ہرجائی ہو گیا آنسو

میرا دامن ہے اور گیلا نئیں

کب ہوئے دوست، کب ہوئے دشمن

آپ کا بھی کوئی بھروسہ نئیں

آئینہ توڑ کر بھی کیا ہو گا

یہ مِرا عکس ہے بڑھاپا نئیں

دل کی باتیں اور اس سے، چھوڑو بھی

وہ جو لگتا ہے یار ویسا نئیں

باتوں باتوں میں جان لیں گے سبھی

جو بھی تیرا نہیں وہ میرا نئیں

آپ جیسے بہت رہے ہوں گے

آپ جیسوں میں کوئی مجھ سا نئیں

اب دعا کیا کروں کہ میں نے تو

وہ بھی سب پا لیا جو مانگا نئیں

وہ تو سنتا ہے ہر کسی کی بات

بات اس کی کوئی بھی سنتا نئیں

آسمانوں میں کھو گئیں جا کر

کچھ پتنگوں کی کوئی سیما نئیں


سیما نقوی

No comments:

Post a Comment