Wednesday 24 November 2021

یادیں حملہ آور تھیں کتنی رات اداسی تنہا میں

 یادیں حملہ آور تھیں کتنی رات، اداسی، تنہا میں

دل تل تل کر کے ٹوٹا ہر لمحہ خود سے جوجھا میں

جانے کس کو ڈھونڈھ رہا ہوں، جانے کس کی ہے یہ کھوج

سُونی آنکھیں، بال بکھیرے، ہر دروازے رُکتا میں

نفرت ہو یا پیار ہو یا دوری بس تجھ سے رشتہ ہو

جیسے چاہے مجھے برت لے تیرا، کیول تیرا میں

اس کو کیا معلوم کہ میرے من کی پرتیں کچی ہیں

باہر باہر بادل گرجا، اندر اندر ٹوٹا میں

اس کا چہرہ، اس ک ا چہرہ، اس کے جیسا کوئی نہ تھا

پربت، وادی، دریا، گلشن، صحرا، جنگل بھٹکا میں

میری فوج میں میرے بازو، اس کی فوج میں میرا دل

سوچ رہا ہوں اس سے الجھ کر کیسے جیت سکوں گا میں

سارے عکس ڈراتے جیسے آسیبوں کی بستی ہو

دنیا کے اس شیش محل میں سہما ایک پرندا میں


طفیل چترویدی

No comments:

Post a Comment