جستجو کے کسی جہان میں ہے
دل پرندہ ابھی اڑان میں ہے
میں اسے دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو
صرف آئینہ درمیان میں ہے
اس کا چہرہ ہے اب بھی آنکھوں میں
اس کی آواز اب بھی کان میں ہے
پاس ہو گا کہ فیل، کیسے کہوں
دل محبت کے امتحان میں ہے
کاش ہوتی وہ حکمرانوں میں
ایک خوبی جو باغبان میں ہے
مار سکتا ہوں، مر بھی سکتا ہوں
آخری تیر بس کمان میں ہے
ہے عجب علم کی دکاں داری
بِک رہا ہے مگر دکان میں ہے
مجھ پہ طاری ہیں وحشتیں کیفی
خواہشِ وصل جسم و جان میں ہے
محمود کیفی
No comments:
Post a Comment