جو پیار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
اقرار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
اس کی تلاش دل سے جو اپنے قریب ہے
بے کار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
اتنی بڑی خدائی میں الفت کی بات بس
دو، چار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
تم ہی بتا دو ہم کو، محبت کا کتنے لوگ
پرچار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
چند ایک لوگ ہیں جو یہ وحشت کے کھیل کا
اصرار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
جن کو بچا کے لائے ہیں دریائے خوں سے ہم
وہ وار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
ہر اک کلی میں غنچے میں اس کے وجود کا
دیدار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
چھپ چھپ کے بیٹھتے تھے جو بزمِ رقیب میں
انکار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
وہ جو عزیز تر تھے مجھے اب نجانے کیوں
بے زار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
گویا ہماری بات کی کچھ قدر بھی نہ ہو
تکرار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
وہ جن کو بو لنےکا ہنر تک نہ تھا عجیب
گفتار کر رہے ہیں زمانے میں دوستو
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment