عارفانہ کلام نعتیہ کلام
چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تیرا ہمسفر نہ ٹھہرے
تِراﷺ حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے
تُو سایۂ حق پہن کے آیا، ہر اک زمانے پہ تیرا سایہ
نظر تِری ہر کسی پہ لیکن کسی کی تجھ پر نظر نہ ٹھہرے
لبوں پہ اِیاکَ نستعیں ہے اور اس حقیقت پہ بھی یقیں ہے
اگر تِرے واسطے سے مانگوں کوئی دعا بے اثر نہ ٹھہرے
حقیقتِ بندگی کی راہیں مدینۂ طیبہ سے گزریں
ملے نہ اُس شخص کو خدا بھی جو تیری دہلیز پر نہ ٹھہرے
کُھلی ہوں آنکھیں کہ نیند والی، نہ جائے کوئی بھی سانس خالی
درود جاری رہے لبوں پر، یہ سلسلہ لمحہ بھر نہ ٹھہرے
میں تجھ کو چاہوں اور اتنا چاہوں کہ سب کہیں تیرا نقشِ پا ہوں
تِرے نشانِ قدم کے آگے کوئی حسیں رہگزر نہ ٹھہرے
یہ میرے آنسو خراج میرا، مِرا تڑپنا علاج میرا
مرض مِرا اُس مقام پر ہے جہاں کوئی چارہ گر نہ ٹھہرے
دکھا دو جلوہ بغور اُس کو، بُلا لو اک بار اور اُس کو
کہیں مظفر بھی شاخ پر سوکھ جانے والا ثمر نہ ٹھہرے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment