گناه کیسا، عذاب و ثواب کون لکھے
ہوا کے ماتھے پہ تقریرِ آب کون لکھے
حقیقوں کے سمندر کو خواب کون لکھے
سفید خون سے اب انقلاب کون لکھے
میں قرض بن کے تِرے ساتھ ہی تو لوں لیکن
سوال یہ ہے کہ اس کا حساب کون لکھے
وہاں بھی بسنے گئے ہیں زمیں کے شہزادے
تمہارے شہر کو اب ماہتاب کون لکھے
کبھی تو کان کے پردے سے یہ سوال بھی ہو
نظر کے پردے سے آخر حجاب کون لکھے
تڑپ ہی جس کا مقدر ہو اس کے سینے پر
ندی کی لہروں سے پھر اضطراب کون لکھے
جسے خود اپنے ہی سائے پہ اعتبار نہیں
تمہی کہو اُسے عزت مآب کون لکھے
زبان والوں کے قصے زباں زباں پر ہیں
قلم کی نوک سے زخمی کتاب کون لکھے
سکوت دشت میں سرگوشیاں ہیں چاروں طرف
کہ منبروں کے لیے اب خطاب کون لکھے
رگوں میں چس کی ہے مایوسیوں کا سرد لہو
وہ بوڑھا جسم ہے اس کو شباب کون لکھے
مجاز زخموں کی تعداد بے حساب سہی
جو زخم دیتے ہیں ان کا حساب کون لکھے
مجاز انصاری
نیاز احمد
No comments:
Post a Comment