محبتوں میں کمال کر کے بھی کیا ملا ہے
دھڑکتے دل کو دھمال کر کے بھی کیا ملا ہے
ملے جو پرسانِ حال آنسو بہا گئے وہ
انہیں شناسائے حال کر کے بھی کیا ملا ہے
ہو وصل چاہے کہ ہجر لیکن ہو مستقل وہ
بہم فراق و وصال کر کے بھی کیا ملا ہے
سبھی لبوں پر ہزار باتیں ہزار قصے
کسی کو چھپ چھپ کے کال کر کے بھی کیا ملا ہے
جواب الٹے دئیے گئے ہیں تمام ہم کو
نہ پوچھ سیدھے سوال کر کےبھی کیا ملا ہے
سیاہ شب کی سیاہی گھٹتی ہے جاگنے سے
اٹھو ان آنکھوں کو لال کر کے بھی کیا ملا ہے
بڑھا بڑھا کے قدم وہیں کے وہیں رہے شاذ
اِدھر اُدھر کا خیال کر کے بھی کیا ملا ہے
زکریا شاذ
No comments:
Post a Comment