Saturday 27 November 2021

محبتوں میں کمال کر کے بھی کیا ملا ہے

 محبتوں میں کمال کر کے بھی کیا ملا ہے

دھڑکتے دل کو دھمال کر کے بھی کیا ملا ہے

ملے جو پرسانِ حال آنسو بہا گئے وہ

انہیں شناسائے حال کر کے بھی کیا ملا ہے

ہو وصل چاہے کہ ہجر لیکن ہو مستقل وہ

بہم فراق و وصال کر کے بھی کیا ملا ہے

سبھی لبوں پر ہزار باتیں ہزار قصے

کسی کو چھپ چھپ کے کال کر کے بھی کیا ملا ہے

جواب الٹے دئیے گئے ہیں تمام ہم کو

نہ پوچھ سیدھے سوال کر کےبھی کیا ملا ہے

سیاہ شب کی سیاہی گھٹتی ہے جاگنے سے

اٹھو ان آنکھوں کو لال کر کے بھی کیا ملا ہے

بڑھا بڑھا کے قدم وہیں کے وہیں رہے شاذ

اِدھر اُدھر کا خیال کر کے بھی کیا ملا ہے


زکریا شاذ 

No comments:

Post a Comment