موتیوں کو چھوڑ مجھ سے پتھروں کا مول کر
گرد کے بازار میں اترا ہوں دامن کھول کر
میں نے ہر آواز کی سرحد پہ گاڑے ہیں علم
دار پر کھِنچنا پڑا، تیری گلی میں بول کر
تیری کِشتِ دل پہ چمکے گا نہ کوئی آفتاب
اپنے خوں سے آپ ہی تعمیر اپنا خول کر
درد کی منزل سے پھر تنہا گزرنا پڑ گیا
رہ گیا ہے وقت پھر اپنے پروں کو تول کر
آگ برساتی گھٹائیں سر پہ ہیں چھائی ہوئی
چھوڑتا جاتا ہوں امیدوں کے موتی رول کر
مطمئن ہے ایک اک لمحہ سحر کے نور سے
رات کے سینے میں مارا ہے وہ نیزہ تول کر
شاید اب تعبیر بھی پرواز مل جائے کوئی
منتظر بیٹھا ہوں اک اک خواب کا در کھول کر
الطاف پرواز
No comments:
Post a Comment