Saturday 27 November 2021

موتیوں کو چھوڑ مجھ سے پتھروں کا مول کر

 موتیوں کو چھوڑ مجھ سے پتھروں کا مول کر

گرد کے بازار میں اترا ہوں دامن کھول کر

میں نے ہر آواز کی سرحد پہ گاڑے ہیں علم

دار پر کھِنچنا پڑا، تیری گلی میں بول کر

تیری کِشتِ دل پہ چمکے گا نہ کوئی آفتاب

اپنے خوں سے آپ ہی تعمیر اپنا خول کر

درد کی منزل سے پھر تنہا گزرنا پڑ گیا

رہ گیا ہے وقت پھر اپنے پروں کو تول کر

آگ برساتی گھٹائیں سر پہ ہیں چھائی ہوئی

چھوڑتا جاتا ہوں امیدوں کے موتی رول کر

مطمئن ہے ایک اک لمحہ سحر کے نور سے

رات کے سینے میں مارا ہے وہ نیزہ تول کر

شاید اب تعبیر بھی پرواز مل جائے کوئی

منتظر بیٹھا ہوں اک اک خواب کا در کھول کر


الطاف پرواز

No comments:

Post a Comment