ان چراغوں سے عداوت کیا ہے
اے ہواؤ! یہ شرارت کیا ہے
گُل بھی کلیاں بھی وہی موسم بھی
پھر یہ گُلشن پہ مصیبت کیا ہے
کر لیا کرب تمہارا محسوس
مسکرانے کی ضرورت کیا ہے
ہاتھ غیروں سے ملاتے ہیں خوب
پھر یہ اپنوں سے کدورت کیا ہے
چند لمحوں کا ٹھکانہ دُنیا
دل لگانے کی ضرورت کیا ہے
ایک دو پل میں ہوا ہو جائے
زندگانی کی حقیقت کیا ہے
عبدالجبار
No comments:
Post a Comment