Sunday, 28 November 2021

ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ

 ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ

سایہ سا نظر آتا ہے ہر ساز کا چہرہ

آنکھوں کی گپھاؤں میں تڑپتی ہے خموشی

خوابوں کی دھنک ہے مِرے ہم راز کا چہرہ

میں وقت کے کہرام میں کھو جاؤں تو کیا غم

ڈھونڈے گا زمانہ مِری آواز کا چہرہ

سورج کے بدن سے نکل آئے ہیں ستارے

انجام میں بیدار ہے آغاز کا چہرہ

پلکیں ہیں کہ سرگوشی میں خوشبو کا سفر ہے

آنکھوں کی خموشی ہے کہ آواز کا چہرہ


یوسف اعظمی

No comments:

Post a Comment