سر کو بچاتے یا در و دیوار بیچتے؟
سر کی حفاظتوں میں کیا دستار بیچتے
شہرت کے مول خوب لگے شہر میں مگر
ہم محترم کہاں تھے؟ جو کردار بیچتے
اس کانپتی زمین نے سب خاک کر دیا
ورنہ ہم آرزوؤں کے مینار بیچتے
ہوتا جو اختیار مِرے ہاتھ میں تو پھر
بستے خرید لاتے، یہ ہتھیار بیچتے
قانون کو جو سیما سمجھ لیتے آج ہم
تو بھوک اور جہل کے آزار بیچتے
عشرت معین سیما
No comments:
Post a Comment