منصف ہو بھلا حکم سنا کیوں نہیں دیتے
مجرم ہوں اگر میں تو سزا کیوں نہیں دیتے
دیوار کھڑی ہو گئی نفرت کی بہر سُو
اربابِ وفا اس کو گرا کیوں نہیں دیتے
وہ خوگرِ دشنام جو افلاک نشیں ہیں
اوقات کبھی ان کی بتا کیوں نہیں دیتے
کچھ دیر کے ہی واسطے ہو گا تو اجالا
ان جھونپڑوں میں آگ لگا کیوں نہیں دیتے
پھر کوئی سونامی کی صدا گونج رہی ہے
خوابیدہ ہیں جو لوگ جگا کیوں نہیں دیتے
رٹتی رہی بیٹے کی جدائی پہ شب و روز
تم شکل ذرا ماں کو دِکھا کیوں نہیں دیتے
اس سے تو فقط زخم ہرا ہوتا ہے انجم
فرسودہ حکایات بھلا کیوں نہیں دیتے
رفیق انجم
No comments:
Post a Comment