Saturday, 27 November 2021

منصف ہو بھلا حکم سنا کیوں نہیں دیتے

 منصف ہو بھلا حکم سنا کیوں نہیں دیتے

مجرم ہوں اگر میں تو سزا کیوں نہیں دیتے

دیوار کھڑی ہو گئی نفرت کی بہر سُو

اربابِ وفا اس کو گرا کیوں نہیں دیتے

وہ خوگرِ دشنام جو افلاک نشیں ہیں

اوقات کبھی ان کی بتا کیوں نہیں دیتے

کچھ دیر کے ہی واسطے ہو گا تو اجالا

ان جھونپڑوں میں آگ لگا کیوں نہیں دیتے

پھر کوئی سونامی کی صدا گونج رہی ہے

خوابیدہ ہیں جو لوگ جگا کیوں نہیں دیتے

رٹتی رہی بیٹے کی جدائی پہ شب و روز

تم شکل ذرا ماں کو دِکھا کیوں نہیں دیتے

اس سے تو فقط زخم ہرا ہوتا ہے انجم

فرسودہ حکایات بھلا کیوں نہیں دیتے


رفیق انجم

No comments:

Post a Comment