یوں خود کو بدل دینا، آسان اگر ہوتا
نیچی سی نظر ہوتی، دل موم کا گھر ہوتا
پہرے نہ بٹھا دیتا، سورج مِری آنکھوں پر
نیندوں میں ہی گُم رہتا، خوابوں میں سفر ہوتا
پھیلے ہوئے شہروں میں، خواہش کے اُگے جنگل
چھوٹی سی تمنا کا، چھوٹا سا نگر ہوتا
کچھ کام کی ہو جاتیں، اپنی بھی مناجاتیں
ہونٹوں پہ دعا ہوتی، لہجے میں اثر ہوتا
کچھ ہاتھ نہیں لگتا، رنگوں کے سوا مجھ کو
تتلی کے تعاقب میں، دیوانہ اگر ہوتا
تیور تو ہواؤں کے، ہر لمحہ وہی ہوتے
کاش اپنے بھی قابو میں، سانسوں کا سفر ہوتا
کچھ دن تو بہار آتی، سُوکھی ہوئی شاخوں پر
خوش رنگ سے پتوں کا، میں سبز شجر ہوتا
ان آنکھ کے اندھوں پر، منظر سبھی کُھل جاتے
تھوڑا سا اگر ان میں، عرفانِ نظر ہوتا
اک بار تو لے جاتا، یادوں میں خلش کوئی
رکھا ہوا جُزداں میں، اک مور کا پَر ہوتا
رؤف خلش
No comments:
Post a Comment