گڑ گئیں جسم میں احساس کے کیلیں کیسے
منجمد ہو گئیں جذبات کی جھیلیں کیسے
تلخ پانی کا سمندر ہے ہمارا مسکن
کیا خبر سجتی ہیں ہر سمت سبیلیں کیسے
ہم نے زنبیلِ محبت میں رکھا تھا جن کو
منتشر ہو گئیں وہ درد کی کھیلیں کیسے
در پہ آہٹ کا گماں رکھتا ہے زندہ ان کو
منتظر آنکھوں کو کھا جائیں گی چیلیں کیسے
اس کو جب مان لیا دل نے تو بس مان لیا
اپنے ہونے کی وہ دیتا ہے دلیلیں کیسے
سرنگوں ہو کے اسے دل کا محل سونپ دیا
جانے مینا وہ اٹھاتا ہے فصیلیں کیسے
مینا نقوی
No comments:
Post a Comment