Saturday, 27 November 2021

محبت ہو کسی سے والہانہ غیر ممکن ہے

 محبت ہو کسی سے والہانہ غیر ممکن ہے

مسلسل اب جگر پر چوٹ کھانا غیر ممکن ہے

چبھن سینے میں ہو تو مسکرانا غیر ممکن ہے

لبوں پر عارضی مسکان لانا غیر ممکن

جہاں تک ہو رسائی آپ کی اتنا ہی دم بھرئیے

پہنچ سے دور ہر اک شے کا پانا غیر ممکن ہے

تغافل چاندنی راتوں میں بھی کرتا ہو جو اس کا

اندھیری رات میں وعدہ نبھانا غیر ممکن ہے

جھلکتی ہے اداکاری تِری ہر بات سے پیہم

تِرے جیسوں سے اپنا دوستانہ غیر ممکن ہے

یہ مانا ہر طرف دُشواریاں ہیں راہِ الفت میں

مگر اس خوف سے اب لوٹ جانا غیر ممکن ہے

فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے نکہتِ گیسُو

تمہارا دیر تک خود کو چھپانا غیر ممکن ہے

ستارے صبح دم یہ جاتے جاتے کہہ گئے مظہر

کسی فرقت کے مارے کو سُلانا غیر ممکن ہے


مظہر قریشی

No comments:

Post a Comment