محبت ہو کسی سے والہانہ غیر ممکن ہے
مسلسل اب جگر پر چوٹ کھانا غیر ممکن ہے
چبھن سینے میں ہو تو مسکرانا غیر ممکن ہے
لبوں پر عارضی مسکان لانا غیر ممکن
جہاں تک ہو رسائی آپ کی اتنا ہی دم بھرئیے
پہنچ سے دور ہر اک شے کا پانا غیر ممکن ہے
تغافل چاندنی راتوں میں بھی کرتا ہو جو اس کا
اندھیری رات میں وعدہ نبھانا غیر ممکن ہے
جھلکتی ہے اداکاری تِری ہر بات سے پیہم
تِرے جیسوں سے اپنا دوستانہ غیر ممکن ہے
یہ مانا ہر طرف دُشواریاں ہیں راہِ الفت میں
مگر اس خوف سے اب لوٹ جانا غیر ممکن ہے
فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے نکہتِ گیسُو
تمہارا دیر تک خود کو چھپانا غیر ممکن ہے
ستارے صبح دم یہ جاتے جاتے کہہ گئے مظہر
کسی فرقت کے مارے کو سُلانا غیر ممکن ہے
مظہر قریشی
No comments:
Post a Comment