مجھے شوقِ دید میں پا کے گم وہ نقاب الٹ کے جو آ گئے
نظر اور کچھ بھی نہ آ سکا وہ میری نظر میں سما گئے
کہاں اپنی ایسی تلاش تھی کہاں اپنی تھی ایسی جستجو
یہ تیرے کرم ہی کی بات ہے تیری بارگاہ میں آ گئے
مجھے تیر آراہوں کا غم نہیں میں گزر ہی جاؤں گا ہم نشیں
وہ دکھا کے مجھ کو رخِ مبیں میرے دل کی شمع جلا گئے
نہیں بے خبر وہ کسی طرح اسے ہر طرح کا شعور ہے
جسے اپنی چشمِ کرم سے وہ ایک جام پلا گئے
مجھے آزما کے تو دیکھ لے غمِ دو جہاں کا امین ہوں
یہ سمجھ لیا ہے کسی نے کیا کہ جہاں سے اہلِ وفا گئے
تیرے ہجر میں ہے وہ حال اب کہ بیاں ہے جس کا محال اب
لیا پوچھ جس نے بھی حال اب تو اشک آنکھ میں آ گئے
وہ ہی بزم عیش و نشاط ہے وہ ہی نغمہ وہ ہی ساز ہے
نہیں دل کو پھر سکون کچھ وہ پیام ایسا سنا گئے
صادق دہلوی
No comments:
Post a Comment