Saturday 27 November 2021

اب وہ ہمارے ساتھ ہو یا دلبروں کے ساتھ

 اب وہ ہمارے ساتھ ہو یا دلبروں کے ساتھ

ہے ہر قدم پہ اس کی انا کمتروں کے ساتھ

آگے بڑھے تو رک گئے اخلاق کے طفیل

کتنا گراں ہوا ہے سفر ہمسروں کے ساتھ

ایسا بھی کیا جنون کہ صحرا کی راہ لیں 

ہے شہر میں بھی سنگ کا رشتہ سروں کے ساتھ

کچھ لوگ اڑن کھٹولوں پہ مشتاق دید تھے

کچھ لوگ زیرِ آب تھے اپنے گھروں کے ساتھ

شاید مِرے مرض کا سبب ہی علاج ہے

لے آؤ دوستوں کو بھی چارہ گروں کے ساتھ

اڑنا محال، لوٹ کے آنا بھی ہے وبال

زخمی دعا خلا میں ہے ٹوٹے پروں کے ساتھ

میں آخری رسولؐ کی امت میں ہوں، ظہیر

یعنی لگاؤ ہے سبھی پیغمبروں کے ساتھ


ظہیر صدیقی

No comments:

Post a Comment