اب وہ ہمارے ساتھ ہو یا دلبروں کے ساتھ
ہے ہر قدم پہ اس کی انا کمتروں کے ساتھ
آگے بڑھے تو رک گئے اخلاق کے طفیل
کتنا گراں ہوا ہے سفر ہمسروں کے ساتھ
ایسا بھی کیا جنون کہ صحرا کی راہ لیں
ہے شہر میں بھی سنگ کا رشتہ سروں کے ساتھ
کچھ لوگ اڑن کھٹولوں پہ مشتاق دید تھے
کچھ لوگ زیرِ آب تھے اپنے گھروں کے ساتھ
شاید مِرے مرض کا سبب ہی علاج ہے
لے آؤ دوستوں کو بھی چارہ گروں کے ساتھ
اڑنا محال، لوٹ کے آنا بھی ہے وبال
زخمی دعا خلا میں ہے ٹوٹے پروں کے ساتھ
میں آخری رسولؐ کی امت میں ہوں، ظہیر
یعنی لگاؤ ہے سبھی پیغمبروں کے ساتھ
ظہیر صدیقی
No comments:
Post a Comment