Saturday 27 November 2021

دیکھا ہے جس کسی کو گرفتار عشق ہے

 دیکھا ہے جس کسی کو گرفتارِ عشق ہے

جو بھی ہے اس جہاں میں طلبگارِ عشق ہے

ہر شے کے جیسے دام وہاں پر کھرے ملے

بازارِ عشق ہے وہ تو بازارِ عشق ہے

برسوں کی دوریوں کو یہ جو قربتیں ملیں

کہنے لگے ہیں لوگ کہ یہ کارِ عشق ہے

صحرائے درد میں بھی سکوں پا لیا تو پھر

کیسی سزا ملے جو گنہگارِ عشق ہے

آنکھیں نہ کھل رہی ہیں وہ پلکوں کے بوجھ سے

دل پر ہمارے ایسا کوئی بارِ عشق ہے

یہ کارِ خیرِ عشق ہے اس کے لیے نجات

کیا اور وہ کرے گا جو بیمارِ عشق ہے

ایسے بھی گھر کو آگ لگا دینی چاہئے

کوئی نہ جس جگہ پہ عزادارِ عشق ہے

ظالم کے آگے سر تو ہمارا نہ جھک سکا

اپنی انا کے بیچ میں پندارِ عشق ہے

اطہر کمالِ حسنِ غزل کی ہے جستجو

استاد کے ہنر کا جو معیارِ عشق ہے


یعقوب اطہر

No comments:

Post a Comment