گلے سے رات کے ایسے لگی چراغ کی لَو
گماں ہُوا کے بچھڑنے لگی چراغ کی لو
ہوا کے ساتھ دِیے کی بھی سانس چلتی ہے
ہوا رُکی تو لَرزنے لگی چراغ کی لو
تمہاری آنکھ کی تعریف کیا چراغ سے کی
تمہاری آنکھ سے جلنے لگی چراغ کی لو
ضرور خون جلایا گیا ہے تیل کے ساتھ
جو اتنی تیز بھڑکنے لگی چراغ کی لو
ہوا لگی ہے اسے بھی نئے زمانے کی
جو اتنے رنگ بدلنے لگی چراغ کی لو
چراغ آئینہ خانے میں لا کے رکھتے ہی
ہر آئینے سے نکلنے لگی چراغ کی لو
ذرا سی دیر جمائی تھی اس پہ آنکھ مگر
مری نظر کو نگلنے لگی چراغ کی لو
آصف رشید اسجد
No comments:
Post a Comment