Friday, 26 November 2021

ہے راز ہستی کہ میرے دل میں یہ نور کیوں ہے یہ رنگ کیوں ہے

 ہے رازِ ہستی کہ میرے دل میں یہ نور کیوں ہے یہ رنگ کیوں ہے

زمانہ میری انا شناسی، وفا پرستی پہ دنگ کیوں ہے

نظر میں تھی جس نظر کی وُسعت وہی نظر اتنی تنگ کیوں ہے

شعور والوں کے ذہن و دل پر یہ تنگ نظری کا زنگ کیوں ہے

زبانِ فطرت کی ہر صدا پر سوال کرتے ہیں ساز و نغمے

اذانِ حق پر ہے ناز اس کو تو ہاتھ میں پھر یہ چنگ کیوں ہے

نظر سے بوسے لُٹا رہا ہوں، بنا کے شیشے کو سنگِ اسود

سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں مِری نظر میں امنگ کیوں ہے

ازل سے لے کر ابد کی حد تک بنائے عالم ہے جِس کی ہستی

اُسی کے سینے کی سرحدوں پر انا پرستی کی جنگ کیوں ہے

سجا رہا تھا جو چاند تاروں سے اپنی قسمت کے آئینے کو

یہ کیا ہوا کہ زمیں پہ آ کر وہ آج بے نام و ننگ کیوں ہے

وہ بے وفا کہہ رہے ہیں لیکن دلیل ہے یہ مِری وفا کی

جو میں نے ہاتھوں سے ڈور چھوڑی تو آسماں پر پتنگ کیوں ہے

جو بے تعلق ہیں اپنے فن سے انہیں بھی فنکار مان لیجئے

سوال یہ ہے جواب والوں کی چاه اتنی دبنگ کیوں ہے

مجاز یہ ہے نظامِ گلشن کہ باغباں کی یہ سازشیں ہیں

ہمیں سے رنگِ چمن ہے قائم ہمیں پہ بارانِ سنگ کیوں ہے


مجاز انصاری

نیاز احمد 

No comments:

Post a Comment