زلفوں کو زنجیر بناتا رہتا ہوں
بادل سے تصویر اُگاتا رہتا ہوں
کاغذ کا دل تِل تِل کالا ہوتا ہے
اپنے عیبوں پر شرماتا رہتا ہوں
ہر رشتے کی اپنی حِدت ہوتی ہے
مٹی رکھ کر چاک گُھماتا رہتا ہوں
ہر دُکھ میرا، میرا اپنا ہوتا ہے
اسی لیے تو سب کو سُناتا رہتا ہوں
یہ آنسو بھی میرے اپنے تھوڑے ہیں
پُرکھوں کی جاگیر لُٹاتا رہتا ہوں
وہ مجھ کو اُستاد سمجھنے لگتے ہیں
میں بچوں کو خواب دِکھاتا رہتا ہوں
اب تو وہاں پر اس جیسا بھی کوئی نہیں
میں پاگل ہوں، آتا جاتا رہتا ہوں
سلیم محی الدین
No comments:
Post a Comment