Friday, 26 November 2021

جنوں کی راہ میں پہلے در جانانہ آتا ہے

 جنوں کی راہ میں پہلے درِ جانانہ آتا ہے

فراغت ہے پھر اس کے بعد ہی ویرانہ آتا ہے

یہ دل کی بات ہے اور بات یہ دل ہی سمجھتا ہے

ہمارے پاس اکثر چل کے خود مے خانہ آتا ہے

کرو ہر گام پر سجدے، محبت کا تقاضہ ہے

بہت نزدیک ہے، اور یار کا کاشانہ آتا ہے

ہوئی ہے کارگر ترکیب میرے دل کی خواہش کی

مجھے بیمار سن کر کوئی بے تابانہ آتا ہے

لگاتی ہے گلے سے شمع اس کو میں سمجھتا ہوں

فنا ہو کر بقا کے رنگ میں پروانہ آتا ہے

شفق سے مے برستی ہے عجب گلرنگ ہے عالم

نظر میں میری سورج صورت پیمانہ آتا ہے

سخن ہے معتبر تیرا سہیل اس نے کہا مجھ سے

قلم سے تیرے اکثر شعر استادانہ آتا ہے


سہیل کاکوروی

No comments:

Post a Comment