نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشکبار اب تک
مِری بے بسی پہ بھی ہے مجھے اختیار اب تک
مِرے باغِ دل پہ آخر یہ بہار بھی ستم ہے
جو گلاب ہم نے بوئے وہ ہیں خار دار اب تک
کوئی آس مجھ کو روکے تِری جستجو سے کافر
میں اگرچہ ہو چکا تھا کبھی شرمسار اب تک
یہ نصیب ہی نہیں تھا کہ میں اپنا حال جی لوں
میں ہوں اپنی خستگی کا خودی سوگوار اب تک
جو بہائے چند قطرے، جو سجائے کچھ تبسم
مجھے ایسی اک خوشی کا رہا انتظار اب تک
یہ عجیب داستاں ہے مِرے بے نیاز دل کی
جو اسے سمجھ نہ پایا ہے اسی سے پیار اب تک
میں کسی کے اشک پونچھوں تو وہ غمگسار میرا
یہ سمجھ کے درد ڈھویا میں نے بار بار اب تک
میں کسے کہوں اے بالغ مِرا غم نواز تو ہے
مِری بے کسی کا کس کو ہوا اعتبار اب تک
عرفان میر
No comments:
Post a Comment