اس کی باتوں کو دل پہ لینا چھوڑ دیا ہے جب سے
سحر یقین مانو ہم بہت خوش رہتے ہیں تب سے
اپنی ہستی سے غرض ہے اپنی مستی میں مگن
اب تو ہر دم خلوت ہی مانگتے ہیں ہم اس رب سے
دھوکہ کسی کے ملنے کا، نہ غم کوئی بچھڑنے کا
ایسے مزاج بھی بدلتے ہیں سحر کبھی سبب سے
اب شاعری میں درد نہیں کسی ہرجائی کا ذکر نہیں
اب شاعری میں حُسنِ کائنات واہ لطف ہیں عجب سے
نہ چھیڑو قصے ماضی کے وہ کہانیاں بھلا دی ہیں
آغاز نئی امنگوں کا، نئی داستاں شروع ہے اب سے
سحر نورین
No comments:
Post a Comment