سنگ کو موم بنانے کا ہنر جانتا ہوں
حدِ ادراک سے آگے کا سفر جانتا ہوں
یہ مِرے یار کی نظروں کی عطا ہے مجھ پر
پسِ دیوار جو ہوتی ہے نظر، جانتا ہوں
ہر کسی شعر پہ دیتا نہیں میں داد کبھی
دل سے نکلیں ہوئی باتوں کا اثر جانتا ہوں
اک ذرا چُھو کے پرکھتا ہوں میں انسانوں کو
آدمی ہے کہ ہے انساں وہ بشر، جانتا ہوں
کب، کہاں، کس سے نمٹنا ہے مجھے آتا ہے
شعر گوئی کے سبب زیر و زبر جانتا ہوں
اہلِ ادراک سے کرتا ہوں محبت دل سے
عام انساں ہوں مگر لعل و گہر جانتا ہوں
عشق میں دل پہ لگے آگ تو خوش بختی ہے
جن سے بجھ جاتے ہیں شعلے وہ شرر جانتا ہوں
وقت کا میں بھی ہوں اک قیس، جبھی ہجراں کے
کیسے ہوتے ہیں شب و روز بسر جانتا ہوں
اشتیاق احمد یاد
No comments:
Post a Comment